اسلام آباد:صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی نے کہا ہے کہ ڈیجیٹل اور مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجیز سے چلنے والی ٹیلی ہیلتھ ملک میں آن لائن فارمیسیوں اور لیبز، چیٹ بوٹس اور آن لائن ٹیلی فونک مشاورت کی ترقی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے تاکہ خاص طور پر پسماندہ علاقوں میں غیر مراعات یافتہ لوگوں کو انتہائی کم لاگت میں طبی مشاورت، رہنمائی اور تشخیص کی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ صدر مملکت نے یہ بات بدھ کو پاکستان کی دوسری ڈیجیٹل ہیلتھ نیشنل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ کانفرنس میں ماہرین صحت، آئی ٹی ماہرین، ڈاکٹرز، سکالرز اور دیگر نے شرکت کی۔ صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان کو صحت کے شعبے میں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں طبی پیشہ ور افراد کی کمی، ناقص انفراسٹرکچر، صحت کی خدمات کی مہنگی لاگت، دیہی علاقوں میں طبی سہولیات کی کمی کے علاوہ صحت اور تعلیم کے شعبہ میں ناکافی فنڈز شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قوم کو درپیش ان مسائل کو مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ٹیلی ہیلتھ اور ڈیجیٹل صحت کے اقدامات کے ذریعے نمایاں طور پر نمٹا جا سکتا ہے جو ورچوئل ہسپتالوں، کلینکس، تشخیصی نظاموں کے ذریعے صحت کی خدمات فراہم کرنے اور احتیاطی تدابیر کو فروغ دے کر ہمارے صحت کے نظام کو خاطر خواہ لاگت کے بغیر بڑھا دے گا جس سے ملک میں بیماریوں کا بوجھ کافی حد تک کم ہو جائے گا۔ صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے کیسز کل آبادی کا 9 فیصد ہیں جو کہ 20 ملین کے لگ بھگ ہیں جبکہ مصر میں ہیپاٹائٹس کا تناسب کل آبادی کا 12 سے 13 فیصد ہے اور اس مہلک بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے اس پر 3 سے 4 ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک غریب ملک ہونے کے ناطے مکمل طور پر علاج معالجہ فراہم نہیں کر سکتا اس لئے احتیاطی اقدامات پر توجہ دینی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دنیا کے بہت سے ممالک کے مقابلے میں کوویڈ-19 وبائی مرض کا بہت بہتر طریقے سے مقابلہ کیا ہے اس سے بچاؤ کے طریقوں کے بارے میں آگاہی پیدا کی گئی ہے اور رابطے کے تمام ذرائع ابلاغ کے ذریعے مسلسل پیغامات پہنچائے جا رہے ہیں۔ جراثیم سے پاک آلات اور سرنجوں کے استعمال، استعمال شدہ سرنجوں کو تلف کرنے اور عوام میں صحت مند طرز زندگی کو فروغ دینے کے بارے میں آگاہی پیدا کرکے ملک میں ہیپاٹائٹس کے انسداد کے لیے اس بہترین عمل کو بھی نقل کیا جانا چاہئے۔ صدر نے کہا کہ حکومت ملک کے لیے ڈیجیٹل اور ٹیلی ہیلتھ پلیٹ فارمز کے حوالے سے قوانین اور پالیسیاں مرتب کر سکتی ہے لیکن نجی شعبے کو ایسے اقدامات کے لیے مہم چلانا اور وکالت کرنا ہو گی اور پالیسیوں کے نفاذ اور ملک سے بیماریوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے صحت کی سہولیات کو صارف دوست، کم لاگت اور قابل رسائی بنانے کے لیے فعال شراکت دار بننا ہو گا۔ بانی صدر ڈیجیٹل ہیلتھ ایسوسی ایشن ڈاکٹر اظفر ملک نے کہا کہ پاکستان ڈیجیٹل ہیلتھ ایسوسی ایشن پاکستان کے ہیلتھ ایکو سسٹم کی نمائندگی کرتی ہے اور اس کا مقصد ڈیجیٹل ہیلتھ فرینڈلی پالیسیاں بنانے اور اسٹیک ہولڈرز کے درمیان تعاون کو فروغ دینے میں حکومت کی مدد کرنا ہے اور دوسری ڈیجیٹل ہیلتھ کانفرنس اسی سلسلے میں ایک قدم ہے ۔ سی ای او کیور ایم ڈی، بلال حشمت نے ڈیجیٹل ہیلتھ سسٹم اور پاکستان میں صحت کے نظام کو بہتر کرنے کے لیے اس کی افادیت کے بارے میں تفصیلی پریزنٹیشن دی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی جی ڈی پی کا تقریباً 4 فیصد صحت کی دیکھ بھال پر خرچ کر رہا ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے صحت کی دیکھ بھال کے لیے جی ڈی پی کا کم از کم 6 فیصد مختص کرنے کی سفارش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی 60 فیصد آبادی کو صحت کی بہتر سہولیات تک محدود رسائی حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں نتائج کو بہتر بنانے، اخراجات کو کم کرنے، کارکردگی کو بہتر بنانے، صارفین کی مصروفیت بڑھانے اور مریضوں کی دیکھ بھال کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل ہیلتھ پاکستان میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے
39