7

جرات، قربانی اور استقامت کی علامت

گلگت بلتستان میں ڈوگرہ راج کی حکومت کا آغاز 1846ء میں ہوا، جب برطانوی سامراج نے کشمیر سمیت گلگت بلتستان کے علاقے کو مہاراجہ گلاب سنگھ کو فروخت کر دیا۔ اس کے بعد، ڈوگرہ حکمرانوں نے اس خطے پر کئی دہائیوں تک حکومت کی۔ ڈوگرہ راج میں عوام پر مختلف پابندیاں عائد تھیں، ٹیکسز اور جبری مزدوری جیسے مسائل عام تھے، اور عوام پر ظلم و جبر کا نظام رائج تھالوگوں کو مختلف قسم کے مظالم کا سامنا کرنا پڑاڈوگرہ حکمران عوام سے جبری مزدوری کرواتے اور بھاری ٹیکس عائد کرتے تھے، جس سے لوگوں کی زندگی مشکلات میں گھر گئی۔مقامی لوگوں کو اپنی مذہبی اور ثقافتی آزادیوں پر پابندی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس کے نتیجے میں عوام میں ڈوگرہ حکومت کے خلاف نفرت پیدا ہونے لگی ڈوگرہ حکمرانوں نے اپنی طاقت برقرار رکھنے کے لیے ایک سخت فوجی نظام نافذ کیا، جس میں مقامی لوگوں کی فوج میں جبری بھرتی بھی شامل تھی،خطے کی ترقی پر توجہ نہیں دی، جس کے نتیجے میں یہاں کے عوام کو بنیادی سہولیات، جیسے تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر، سے محروم رکھا گیا۔1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے موقع پر، گلگت میں موجود عوامی اور فوجی رہنماؤں نے ڈوگرہ راج کے خلاف بغاوت کا آغاز کیا۔ اس بغاوت کی قیادت میجر ولیم براؤن اور کیپٹن حسن خان نے کی اور مقامی لوگوں نے بھرپور تعاون کیا،یہ دن اُن کی جرات، قربانی اور استقامت کی علامت ہے، اور یہ یاد دلاتا ہے کہ کس طرح انہوں نے ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف کامیاب بغاوت کر کے اپنی زمین کو آزاد کرایا اسی لئے یکم نومبر کا دن گلگت بلتستان کے عوام کی آزادی، اتحاد اور خود مختاری کی علامت ہے۔ اس دن کو منانے سے عوام کو اپنے اسلاف کی قربانیوں کی یاد تازہ رہتی ہے اور یہ عزم مضبوط ہوتا ہے کہ آزادی کو قائم رکھنے کے لیے ہمیشہ متحد رہیں گے۔گلگت بلتستان میں یکم نومبر کو یومِ آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن 1947ء میں اُس تاریخی واقعے کی یاد دلاتا ہے جب گلگت کے لوگوں نے ڈوگرہ راج کے خلاف بغاوت کرکے آزادی حاصل کی تھی۔ گلگت بلتستان کے بہادر رہنماؤں اور مقامی قبائل نے اس تحریک کو کامیاب بنایا اور اپنی سرزمین کو آزاد کیا۔ اس دن کی یاد میں ہر سال گلگت بلتستان میں خصوصی تقریبات، ریلیاں، اور جشن منایا جاتا ہےان اہم تقربیات آزادی کے حوالےپرچم کشائی کی جاتی ہے گلگت کے اہم مقامات اور سرکاری عمارتوں پر پاکستانی اور گلگت بلتستان کے پرچم لہرائے جاتے ہیں اور مقامی لوگ اپنے مقامی لباس پہن کر ریلیاں نکالتے ہیں، اور آزادی کے نعرے لگاتے ہیںاس دن کو بھرپور جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں اس کے علاوہ تقاریر اور دعائیہ تقریبات بھی اس کا اہم حصہ ہیں اس موقع پر مقامی رہنما اور عمائدین تقاریر کرتے ہیں اور آزادی کے لئے جان دینے والے شہداء کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیںثقافتی پروگرام کاانعقاد کیا جاتا ہےگلگت بلتستان کی منفرد ثقافت کو اجاگر کرنے کے لئے مقامی موسیقی، رقص، اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہےجس میں بھرپور شرکت ہوتی ہےاس دن کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے، گلگت بلتستان کے مختلف شہروں میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے خصوصی سیکیورٹی انتظامات کیے جاتے ہیں یہاں کی بہادر عوام نے ڈوگرہ راج سے اپنی سرزمین کو آزاد کیا تھا۔ اس تحریک کو کامیاب بنانے میں مقامی قبائل، رہنماؤں، اور نوجوانوں کا اہم کردار تھا، جنہوں نے بڑی قربانیاں دیں اور بالآخر گلگت بلتستان کو ڈوگرہ حکومت کے قبضے سے آزاد کرایایکم نومبر کا دن گلگت بلتستان کے عوام کی بہادری، اتحاد، اور آزادی کی علامت ہے۔ یہ دن نہ صرف ان کے آبا و اجداد کی جدوجہد کی یاد تازہ کرتا ہے بلکہ مستقبل کی نسلوں کو بھی یہ پیغام دیتا ہے کہ آزادی کی حفاظت کے لئے سب کو یکجہتی اور حب الوطنی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں