گلگت (س ر)قراقرم یونیورسٹی دیامر اور غذر کیمپس کی بندش گلگت بلتستان کی عوام کے لیے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی دیامر کیمپس اور غذر کیمپس کی بندش کی خبر انتہائی مایوس کن اور تشویشناک ہے۔ ان کیمپسز کی بندش سے علاقے کے نوجوانوں کے تعلیمی مستقبل پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے اور یہ اقدام علاقے کی ترقی میں بڑی رکاوٹ بن سکتا ہےدیامر اور غذر کیمپس گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو ان کے گھروں کے قریب اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ ان اداروں کی موجودگی نہ صرف طلبہ کو معیاری تعلیم فراہم کرتی ہے بلکہ ان کے والدین پر بھی مالی بوجھ کو کم کرتی ہےان کیمپسز کی بندش سے نوجوانوں کو دور دراز علاقوں میں جا کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا، جس سے ان کی تعلیمی راہ میں مشکلات اور مالی بوجھ میں اضافہ ہوگا یہ بات ناقابل فہم ہے کہ جب دنیا بھر میں تعلیم کو فروغ دینے پر زور دیا جا رہا ہے، تو یہاں گلگت بلتستان میں تعلیمی اداروں کو بند کیا جا رہا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف حکومت کی عدم توجہی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ علاقے کے نوجوانوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ بھی ہےہم حکومت سے پُرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر ان کیمپسز کی بندش کے فیصلے کو واپس لیا جائے اور علاقے میں تعلیمی سہولیات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اگر وائس چانسلر نے اس نوٹیفکیشن کو واپس نہ لیا تو ہم اپنے حقوق کے لیے ملک بھر میں احتجاج کریں گے۔ یہ احتجاج پرامن ہوگا مگر ہماری تعداد اور ہمارے جذبے سے حکومت کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام اور طلبا ء و طالبات اپنے تعلیمی حقوق کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیںیہ وقت ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور گلگت بلتستان کے عوام کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ نہ صرف دیامر اور غذر کیمپسز کی بحالی کی جائے بلکہ علاقے میں مزید تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں تاکہ یہاں کے نوجوانوں کو اعلیٰ اور معیاری تعلیم کے مواقع فراہم کیے جا سکیںگلگت بلتستان کے نوجوانوں کا مستقبل ہماری اولین ترجیح ہے اور ہم کسی بھی صورت میں ان کے حقوق پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔ ہم حکومت سے فوری کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ علاقے کی تعلیمی ترقی میں رکاوٹ نہ آئے اور نوجوانوں کو ان کے مستقبل کے خوابوں کی تعبیر مل سکے۔
تین تلوار چوک تا بلترو ریسٹ ہاوس گزشتہ تین سال سے کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ جو کہ یہاں کے باسیوں کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔ معمولی ہوا کے چلنے یا گاڑیوں کی چلنے پر مٹی اڑتے ہیں جس کے سبب آس پاس کے باسی دمہ کے علاوہ مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں. اسی طرح سے متعلقہ روڈ پر دس منٹ پیدل چلیں تو لوگ پہچان نہیں پاتے ۔ ہم نوجوانان الڈینگ ، بزرگان الڈینگ اور سردگان الڈینگ اس ضمن میں چیف انجینئر بلتستان ڈویژن ، کمشنر بلتستان، ڈپٹی کمشنر اور ایس ڈی سے متعدد بار ملاقاتیں بھی کیں ہے اور ان سے عوام کو درپیش مشکلات کے پیش نظر روڈ کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کی درخواست کیں لیکن ٹھیکدار اسی وقت ایک دو دن کام کرتے تھے پھر غائب۔یہ سلسلہ پچھلے چار سال سے جاری ہے!!اس کے علاوہ ڈرینیج کا مسلہ کافی عرصہ سے لٹکا ہوا ہے سکردو میونسپل ایریا ہونے کے باوجود یہاں کے مکینوں کو باضابطہ طور ڈرینیج نہ ہونے کی وجہ لوگوں کے گھروں اور باڑوں میں پانی جانا روز کا معمول بن چکا ہے بالتریب زراعت، جانوروں اور درختان سمیت علاقہ مکینوں کے لیے تکلیف و خطرے کا باعث بن رہے ہیں اس بابت بھی متعدد بار کمشنر، ڈپٹی کمشنر، سکردو ڈویلپمنٹ اتھارٹی، چیف انجینئر بلتستان ڈویژن اور دیگر ڈیپارٹمنٹ کے زمہ داران کے پاس گئے اور حال ہی میں جناب وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان، چیف سیکٹری کے بھی گوش گزار کر چکے ہیں۔ وہی وعدہ وعید تک رہا لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی!! پانی کے حوالے سے واٹر رائٹ رکھنے والے الڈینگ ایریا میں ہمیشہ کم پریشر پانی آتا ہے کبھی کبھی دوسری منزل تک پانی نہیں پہنچ پاتا لوگ موٹر چلانے پہ مجبور ہے۔ پانی کی بحران کو ختم کرنے کے لیے دو ٹینکی بنائے گئی تھیں اس میں سے الڈینگ ننگ ژھوق والی عرصہ سات سال گزرنے کے باوجود بھی غیر فعال ہے! سٹریٹ لائٹ و بنچ بھی ایس ڈی ایف نے کچورا تا سرمیک نصب کیا ہے لیکن الڈینگ ایریا میں ابھی تک ایک بھی سٹریٹ لائٹ نہیں لگایا گیا اور نہ ہی بنچ اس سے متعلق بھی ایس ڈی ایف کے زمہ داران اور ضلعی انتظامیہ کیساتھ کئی دفعہ نوجوانان الڈینگ کی ملاقات ہوئیں مسائل کے بارے میں آگاہ کیا لیکن بد قسمتی وہ بھی صدا بہ صحرا ثابت ہوئیں ان تمام مسائل کو لیکر نوجوانان الڈینگ اور عوام متعلقہ ڈیپارٹمنٹ انتظامیہ اور حکومت سے نالاں ہے ہم نے جمہوری طریقے سے پچھلے چار سال سے مزاکرات کا طریقہ اپنایا ہوا ہے اور متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کے زمہ داران سے مسائل اور مشکلات کے بارے میںآگاہ کرتے چلے آرہے ہیں اس کے باوجود بھی کسی کے کانوں جوں تک نہیں رینگی اب نوجوانان الڈینگ شدید احتجاجی راستہ اپنانے پر مجبور ہیں اس دوران کسی قسم بھی کے ناخوشگوار واقعہ رونما ہونے کی صورت میں تمام تر ذمہ داری متعلقہ محکموں کے سربراہان پر عائد ہوگی کیونکہ نوجوانان اولڈینگ مسائل سے متعلق تمام محکموں کے زمہ داران کی توجہ مبذول کرانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن بد قسمتی سے یہاں کسی نے کان نہیں دھرا۔
41