خداوند متعال نے خاک کے پتلے میں جب روح پھونک دی تب سے خاک میں حیات شروع ہوئی، مگر اس پتلے میں مقعید روح کو کبھی بھی سکون میسر نہیں آیا۔ ہر وقت بے چینی کے عالم میں در بہ در پھرتے رہنا، ہمیشہ یہی گلہ کرتے ہوئے نظر آتی ہے “زندگی تو آپ جی رہا ہے، ہم تو گزار رہے ہیں”۔
جی ہاں، یہی جملہ اکثر وبیشتر ہر کس و ناکس کو سننے کو ملتا رہتا ہے۔ کچھ دنوں پہلے ہم بھی چند رفیقوں کے ہمراہ پشاور اور اس کے مضافات میں واقع شہر کی بے نیازی کو دیکھنے اور ہستی حباب کی بے سکونی کو کچھ حد تک تسکین بخشنے کے لئے نکلے۔ جب شہر پشپا (پشاور) میں پہنچا، اس کے بعد اڈے سے نزدیک ترین تاریخی مقام (قلعہ بالا حصار) کی بیرونی حصہ کا زیارت کچھ فاصلے پر نگاہ کو نصیب ہوئی۔ اسکے بعد قدم بر قدم ہونا شروع ہوا۔ جب نزدیک پہنچ کر اندر جانے کی اجازت مانگی تو معلوم ہوا کہ اس دیوقامت اور وسیع و عریض قلعہ کی نگرانی فوج کے ہاتھوں میں ہے، یہ شارع عام کے لیے ممنوع ہے۔ جوں ہی یہ الفاظ کانوں سے ٹکرائی بے ساختہ دل سے، حاجی صاحب کے لئے چند ایسے دعائیہ کلمات نکلے جو آج کل ہر کس و ناکس کے زبان زد عام ہے۔ بحر کیف پھر ساتھیوں کے پر زور اپیل پر قلعہ کے دائیں طرف موجود قصہ خوانی بازار میں پیٹ پوجا کے لیے گئے۔ جوں ہی کھانے سے فارغ ہوئے، اس تاریخی بازار میں چہل قدمی شروع کی، گھومتے پھرتے بازار کے کسی اور کونے سے قلعہ کی مضبوط دیوار سے ٹکرائی۔ اسی دیوقامت دیوار کے سایہ تلے ہم بھی چلا پڑے، کیونکہ ہمارا اگلا ہدف پشاور میوزیم تھا۔ اس میوزیم کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں گندھارا آرٹ کا ذخیرہ ہے، نیچے کی مرکزی گیلری میں بدھا کی پیدائش سے قبل اور بعد کی کہانیوں کے ساتھ بدھا کی پوری زندگی کو خوب صورت طریقے سے پتھروں پر کندہ ہے۔ یہاں گوتم بدھ کا ایک مجسمہ موجود ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا دریافت شُدہ مجسمہ ہے۔ اوپر کی گیلری میں مختلف دور کے قدیم سکہ، کلاش قبائل کے ثقافت اور اسلامی ادوار کے مختلف قلمی نسخوں کے ساتھ خطاطی اور مغلیہ دور کی تصاویر شامل ہیں۔ میوزیم کے مختلف جگہوں پر عکس بندی کرنے کے بعد سفر نمک منڈی بازار کی طرف موڑ دیا تاکہ نثار چرسی تکہ کڑاھی کا مزا بھی لوٹے اور بر وقت رات کو قیام کے لئے اچھی مناسب قیمت پر ہوٹل میں کمرہ مل جائے۔
کچھ دیر آرام کرنے کے بعد آج کے سفر کا جائزہ گوگل میپ کے ذریعے دیکھا، تو معلوم ہوا ہم نے مکمل بالا حصار قلعہ کا طواف کیا تھا۔ ہائی افسوس، ساری قوم پچھلے 75/76 سالوں سے اسی طرح حاجی صاحب …
اگلے دن دوسرے سیاحتی اور تاریخ مقامات کی فہرست دیکھی اور ان کے تعاقب میں نکل پڑے۔ ان میں سے چند مقامات کی دیدار نصیب ہوئی اور کچھ سے محروم رہے۔ ان حالات واقعات کی تناظر میں سب سمجھ چکے تھے کہ پشاور کا ‘پروگرام تو وڑ گیا’۔ اسی وقت افتخار بھائی کو اپنے کسی عزیز کی طرف سے مسیج آتا ہے ، دیکھ کر موصوف کہتا ہے کہ واہ بھائی، زندگی تو آپ جی رہے ہو، ہم تو گزار رہے ہیں۔ موصوف کے حساب سے درست ہے، کیونکہ کیمرے کے پیچھے اور آگے بیٹھے سارے لوگ اداکاری کے جوہر دیکھ رہے تھے۔ اس کے پس پردہ کہانی نہ موصوف جان پائے نہ ہمیں سمجھ آئیں کیا واقعی زندگی ہم جی رہے تھے، کیا دن بھر پشاور کی سڑکوں پر خوار ہونا، صدر بازار میں موجود پارک میں زلیل ہونا یا بالا حصار قلعہ کا طواف کرنا زندگی جینے کا نام ہے تو گزارنے کا نام کیا ہونا چاہیے۔۔
یہاں سے مردان (تخت بھائی) کی طرف نکلتے ہوئے دو سوالوں کے جواب کی تلاش میں تھا (پہلا: زندگی جینے اور گزارنے میں فرق کیا ہے؟، دوسرا: جو چراغ پشاور میں مدھم ہوئے ان کو پھر منور کیسے کیا جائے؟)۔ اور ساتھ ہی حضرت غالب کا یہ مصرع ذہین میں گردش کرنے لگا: “بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے۔” پرش پورہ (پشاور) سے بے آبرو ہو کر نکلے تقریباً دو گھنٹہ بعد ہم تخت بائی کے کھنڈرات پر پہنچے۔ یہ آثار قدیمہ زمین سے کچھ میٹر بلندی پر واقع ہیں۔ اس کی ایک طرف چھوٹی سی پارکنگ، دوسری جانب باغیچہ اور سامنے پہاڑ کے دامن میں سیڑھیاں اوپر جا رہی تھیں۔ آگے بڑھتے ہوئے ابتدائی چند سیڑھیوں تک صرف پہاڑ ہی نظر آیا۔ پھر قدیم دور کی چیزیں دکھائی دینا شروع ہوئیں۔ سیڑھیوں کے سہارے چلتے چلتے دس سے بارہ منٹ بعد اوپر پہنچے تو سامنے موجود صحن میں مستطیل شکل کے بہت سے چبوترے اس کے اردگرد دیوار میں مسجد کے ممبر نما جگہ بنائی ہوئی تھی۔ اس کے دائیں جانب خانقاہ (تعلیمی درسگاہ )اس کے بغل میں کانفرنس ہال اور اس کے سامنے ایک کھلا صحن جس کے بلکل نچلے حصے میں چلہ خانہ اور اس صحن کے سامنے چند سیڑھیاں چڑھنے کے بعد اگلا کمر جس کے بیچوں بیچ مربع نما چبوترے ہیں۔ اس کے اردگرد بدھ مذہب کے پیروکار چکر لگاتے جس طرح مسلمان خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں۔
اس کھنڈر کی بالائی مقام سے اس تاریخی جگہ کا منظر نظروں میں سمائے بحر یادش میں پشاور میوزیم میں سجائے ہوئے بدھا کی پوری زندگی کی کہانی کو تخت بھائی کی کھنڈرات میں رکھے تو بے چین روح کو چین اور ساتھ ہی گل ہونے کے قریب چراغوں میں پھر زندگی لوٹ آتی ہے۔
81