فلسطین کو انبیاء کی سرزمین اور مسکن کہا جاتا ہے۔فلسطین عرض محشر ہے اور اسے نماز کے فرض ہونے کے بعد قبلہ اول ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج پر لے جانے سے پہلے بیت المقدس لایا گیا جہاں پر انہوں نے انبیاء علیہم السلام کی امامت فرمائی۔اس شہر کو شہیدوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ اس شہر کو رومیوں سے بچانے کے لئے پانچ ہزار سے زائد صحابہ کرام نے جام شہادت نوش فرمائی۔ آج تک شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسی سرزمین پر بیٹھ کر پوری دنیا پر حکومت کی۔ اسی شہر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بی بی مریم کے بطن سے ولادت ہوئی۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی قوم نے قتل کرنا چاہا تو اسی شہر سے اللہ تعالیٰ نے زندہ اٹھا لیا اور اسی شہر میں دوبارہ اتارا جائے گا۔ اسی شہر میں حضرت عیسیٰ دجال کو قتل کریں گے۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام نے اسی شہر کی طرف ہجرت فرمائی۔حضرت زکریا علیہ السلام کا مزار بھی اسی شہر میں ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر اسی شہر میں عذاب نازل ہوا۔ یہودیوں کو سب سے پہلے سلطنت عثمانیہ کے چونتیسویں خلیفہ عبد الحمید دوئم کے دور 1876ء سے 1909ء تک عرب سرزمین پر آباد اور ہر قسم کی سہولت دی گئی۔ اس طرح یہودیوں نے عربوں کے ساتھ تعلقات بنائے کچھ لوگوں کو پیسے کی لالچ دے کر اور کئی عرب مسلمانوں کو خوبرو نوجوان لڑکیاں دے کر رشتے دار بنایا اور مختلف طریقوں سے قدم جمانے شروع کیے۔ پہلی جنگ عظیم میں عربوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف برطانیہ کا ساتھ دیا اور ان عربوں کی وجہ سے برطانیہ عروج پر پہنچا، سپر پاور بنا۔ اسی دور میں فلسطین میں یہودیوں کو مضبوط ہونے کا موقع ملا۔ نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ میں اسرائیل کے قیام کے لیے قرار داد منظور ہوئی۔ ان ہی دنوں میں سعودی عرب میں امریکی کمپنیوں نے تیل نکالنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اب یہاں پر پیسے کی زیادہ آمدن شروع ہوئی اور خوشحالی کا دور شروع ہوا۔ عرب ممالک کے امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ مالی مفادات وابستہ تھے۔ دوسری طرف عربوں کو یہ بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ انہوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف برطانیہ اور امریکہ کی مدد کر کے غلطی کی جس کا نتیجہ اب عرب سرزمین پر یہودیوں کی ریاست کے قیام کی صورت میں سامنے آیا۔ اب عربوں نے اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کے لیے اسرائیل اور اس کے ساتھ کھڑے برطانیہ امریکہ روس کی پرواہ کیے بغیر فوجی بغاوت شروع کر دی اور اسرائیل کے ارد گرد آباد ریاستوں میں مصر، شام،لبنان،فلسطین میں موجود مسلمانوں کے ساتھ مل کر یہودیوں کو مارنا شروع کر دیا اور اسرائیل کے زیر تسلط کئی علاقوں کو آزاد کرا لیا۔ اسی دوران پوری دنیا سے ماہر یہودی فوجی جو جنگیں لڑ چکے تھے اسرائیل میں اکٹھے کیے گئے۔اسرائیل کی طاقت کو دوام بخشنے کے لیے امریکہ نے فوجی سامان اور جدید طرز کے ہتھیار بھی پہنچا دیے۔ اس طرح اسرائیل نے عربوں سے جنگ میں چھینے گئے علاقوں کو بھی آزاد کروا لیا۔ سعودی عرب کا شاہی خاندان آل سعود عربوں کی قیادت کر رہا تھا 1948ء کی اس جنگ میں عربوں کی شکست کے بعد ایک معاہدہ طے پایا کہ گولی اب نہیں چلے گی۔ اس دوران اسرائیل کے پڑوسی ملک شام کے شہر دمشق جہاں صلاح الدین ایوبی کا مزار بھی ہے وہاں عرب لیگ کا ایک دفتر بھی بنا لیا عربوں نے مل کر یہ طے کیا کہ ہم سب اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ بلکہ اس کا مکمل خاتمہ کریں گے۔ اور یہ بھی طے کیا کہ کوئی بھی اسرائیل کے ساتھ تجارت یا تعلق نہیں رکھے گا۔ اور یہ بھی طے پایا کہ کسی بھی ایسے ملک یا کمپنی کے ساتھ تعلق نہیں رکھیں گے جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنائے گا۔ عربوں نے اسرائیل کا مکمل معاشی بائیکاٹ کیا۔ ایک وقت تھا کہ اسرائیل کی کوئی خبر کسی بھی عرب ریڈیو ٹیلی ویژن اخبار میں نہیں چلائی جا سکتی تھی۔ لفظ اسرائیل کسی جگہ بولا یا لکھا نہیں جا سکتا تھا۔ اس لفظ کے ساتھ اس قدر نفرت تھی کہ لفظ اسرائیل عربوں کے لیے ایک گالی سمجھی جاتی تھی۔ 1967ء میں جب شاہ فیصل سعودی عرب کا شہنشاہ تھا۔ ان ہی دنوں عرب اسرائیل کے درمیان ایک اور جنگ چھڑ گئی۔ عربوں نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ اسرائیل نے امریکی تعاون سے عربوں کے خلاف بہت جارہانہ وار کیے۔ عرب بجائے کچھ حاصل کرنے کے اپنے بہت سے علاقے گنوا بیٹھے۔ حتیٰ کہ بیت المقدس اسرائیل کے قبضے میں آ گیا۔ اس جنگ میں پاکستان نے غیر سرکاری طور پر چند جنگی جہازوں کے پائلٹ بھیجے۔ پاکستان کے ایک پائلٹ سیف الاعظم نے انتہائی مہارت کے ساتھ اسرائیل کے چار جنگی جہاز تباہ کر دیے۔ اس انفرادی کارکردگی کے علاؤہ کوئی قابلِ ذکر کارکردگی نہ دکھائی جا سکی۔امریکہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کا بھی اتحادی تھا۔ عربوں نے یہ طے کیا کہ اب جو بھی ملک اسرائیل کا ساتھ دے گا اس کا تیل بند کر دیں گے۔ تیل کو بطور ہتھیار استعمال کریں گے۔ 1973ء میں عربوں نے پھر اسرائیل پر حملہ کر دیا امریکہ دوبارہ بیچ میں کود پڑا اسرائیل کو جدید جنگی جہاز اور اسلحہ پہنچانا شروع کر دیا۔ اسی وجہ سے عربوں نے امریکہ سمیت ان تمام ممالک جو اسرائیل کے ساتھ تعاون کر رہے تھے ان کے لیے تیل کی سپلائی بند کر دی۔ جب تیل بند ہوا تو امریکہ کی اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی اور اس کے چھکے چھوٹ گئے۔ جو ممالک امریکہ کی وجہ سے اسرائیل کی مدد کر رہے تھے۔ وہ تلملا اٹھے اور امریکہ سے ناراض ہوئے کہ ہمیں اس مشکل سے نکالو یہ امریکہ پر مشکل ترین وقت تھا تو اس کی سفارتی کوششوں کی وجہ سے پانچ ماہ عرب لیگ یہ جنگ جیت تو نہیں سکی البتہ ایک معاہدہ ہوا۔ جس میں یہ طے پایا کہ اسرائیل نے جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے۔ وہ واپس کر دیے جائیں گے۔ اس کامیابی کے پیچھے شاہ فیصل بن عبد العزیز کا نمایاں کردار تھا۔ جنہوں نے 1973ء ہی میں پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اور مصر کے صدر کے ساتھ مل کر مسلم بلاک بنانے کی کوشش کی۔ یہ سب رہنما مختلف حالات میں قتل کر دیے گئے۔ مسلمانوں کو اکھٹا کرنے کی خواہش صرف خواہش ہی رہ گئی۔ ایک وقت تھا جب تمام عرب ممالک اسرائیل کی دشمنی میں اپنے تمام تر مفادات داؤ پر لگا دیا کرتے تھے۔ اب کیا ہوا کہ سارے عرب ممالک لائن میں لگے ہوئے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے اور تجارت اور تعلقات بنائے جائیں۔ اس وقت ستاون اسلامی ممالک ہیں جو کسی طرح بھی مخلص نہیں اس دنیا کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور ذاتی مفادات کو اجتماعی یگانگت اور مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔ اب اسرائیل کا جب دل چاہے جس وقت فلسطین لبنان اور کسی بھی پڑوسی ملک کی مظلوم عوام پر آگ کے گولے فائر کر کے نہتے بچوں اور خواتین کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ حالیہ ایک ہفتے کی شدید گولہ باری سے ہزاروں معصوم بچوں مرد و خواتینِ کو شہید کر چکا ہے۔ کئی ہزار کو زخمی کر چکا ہے۔مسلمانوں کی نام نہاد اسلامی تنظیم او آئی سی یا عرب لیگ صرف بند کمرے میں بیٹھ کر دبے لفظوں میں مذمت پر اجلاس ختم کر دیا جاتا ہے۔ مسلمان صرف اسرائیل کی تباہی کے لیے اللّٰہ سے دعائیں مانگتے تک ہی محدود رہتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں کئی مرتبہ اسرائیل نے فلسطین غزہ اور دیگر علاقوں میں جنگی جرائم کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ آخر کار مجاہدین اور حماس کے جانبازوں اور دیگر گروہوں نے تن تنہا اسرائیل پر ایسی کاری ضرب لگائی جو یہودی اور اسرائیل مدتوں تک یاد رکھیں گے۔ جس طرح امریکہ اپنے لے پالک کے لیے ہر مرتبہ دفاع میں آ جاتا ہے اور بھرپور حمایت کرتا ہے اگر ستاون اسلامی ممالک اکٹھے ہو جائیں تو مظلوم اور محکوم مسلمانوں کو ان مظالم سے نجات حاصل ہو سکتی ہے۔ اس وقت کی تازہ ترین صورتحال کے مطابق اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کی وجہ سے غزہ ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے۔ چند بچے کھچے ہسپتال زخمیوں سے بھر گئے ہیں قبرستان لاشوں سے بھر گئے ہیں۔ ناکہ بندی کی وجہ سے شہر میں خوراک اور ادویات کی قلت شدت اختیار کر گئی ہے۔ تقریباً ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ غزہ کے لیے ہولناک ہر دن بھیانک ہر رات۔ جنگی طیاروں کی بمباری سے مسلسل موت کی برسات۔ کوئی گھر کوئی عمارت باقی نہیں بچ سکی۔
91